١ ستمبر ٢٠١٩ :
گوریکوٹ تا منی مرگ
صبح ٨ بجے ناشتہ کیا۔ اور ٨: ۴۵ پہ منی مرگ کے لیے روانہ ہوا۔ ١ گھنٹے میں چلم چوکی پہنچ گیا۔ یہاں ایک ہوٹل پہ اپنا سامان وغیرہ رکھا اور باقی کچھ ضروری سامان اپنے ساتھ رکھ لیا۔ سب سے پہلے چلم چوکی پہ انٹری کروانا لازمی ہوتا ہے۔ استور سے جو پرمیشن لیٹر ملا تھا اس کی تین کاپی ملی تھیں۔ ایک کاپی چلم چوکی پہ جمع کروانی ہوتی ہے۔ اور ساتھ میں اپنا شناختی کارڈ بھی جمع کروانا پڑتا ہے۔
سارے معاملات طے کرنے کے بعد آگے کے سفر کے لئے روانہ ھوا۔ ایک بات جو ہر کسی نے پوچھا کہ آپ اکیلے آئے ھو تو بتانا پڑتا کہ جی۔ ہر کوئی ایک ہی مشورہ دیتا کہ اکیلے نہ آتے کسی کو لے کے آتے وغیرہ۔ اب ان کو میرے جنون کا کیا پتا کے میرے اندر ایڈونچر کا کتنا بھوت سوار ہے۔ میرے پورے سفر میں میں اکیلا ھی تھا مطلب وہاں زیادہ تر ١٢۵ بائیک ہیں جو بھی میرے پاس سے گزرتا وہ شوں کر کے گزر جاتا کیونکہ میری ٧٠ بائیک نے اپنی دھیمی رفتار میں چلنا تھا۔ منی مرگ کا راستہ کافی حد تک بن گیا ہے۔ اور ابھی مزید کام ہو رھا ھے۔ چلم چوکی کے بعد کافی دفعہ چیک پوائنٹ پہ انٹری کروانا ھوتی ھے۔ چلم چوکی کے بعد برزل ٹاپ آتا ھے یہاں پہ اونچائی کافی زیادہ ھے۔ یہاں تک جانے کے لئے بائیک کو کافی زور لگانا پڑتا ھے۔ برزل ٹاپ کے بعد ایک دفعہ پھر اترائی شروع ھوتی ھے
۔ ١بجے میں منی مرگ پہنچ گیا۔ یہاں پہ ایک لیٹر جمع کروایا۔ اور دومیل کی طرف نکل پڑا۔ دومیل کا راستہ ١۵ کلومیٹر ھے۔ ان راستوں پہ خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
٢ بجے میں دومیل میں موجود رین بو لیک کے پاس پہنچ گیا۔ یہ سارا علاقہ بارڈر ایریا ہے۔ کچھ وقت انجوائے کرنے ، فوٹو لینے کے بعد واپسی کی راہ لی۔ منی مرگ کے بعد جب آپ برزل ٹاپ کی طرف آتے ھیں تو ساری چڑھائی شروع ھوتی ھے۔ وقفے وقفے پہ آپکو بائیک کو ریسٹ کروانا لازمی ھوتا ھے ورنہ بائیک کو کچھ بھی ہو سکتا ھے۔ خیر ۵ بجے برزل ٹاپ پہ پہنچ گیا۔ یہاں پہ بھی کچھ فوٹوز لی اور اس طرح ٦ بجے واپس چلم چوکی پہنچ گیا۔ رات ھو گئی تھی اور تھکاوٹ بھی بہت تھی۔ جہاں سامان رکھ کے گیا تھا وہاں ایک بسترا دیا انہوں نے اور اس طرح میں نے رات گزاری۔ بسترے کی قیمت صرف ١٠٠ روپے تھی۔ کھانے کے ریٹ بھی نارمل تھے۔